اسلامی طرز زندگی اور جدید چیلنجز
آج کے اس دور میں جہاں ہر طرف جدیدیت، نت نئی ایجادات اور سوشل میڈیا کا طوفان ہے، وہاں اسلامی طرز زندگی اور جدید چیلنجز کو ایک ساتھ لے کر چلنا بظاہر مشکل لگتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام ہی وہ مکمل ضابطہ حیات ہے جو ہر دور میں ہمارے مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔
ہم اکثر کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، لیکن ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کیا ہمارا طرز زندگی واقعی اسلامی طرز زندگی ہے؟ یا ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں؟ یہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔
ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمارے لیے سب سے بڑا آئیڈیل حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے۔
ان کی سیرت پڑھنا، جاننا، سمجھنا اور اپنی زندگی میں لانا ہی اصل کامیابی ہے۔
آج ہم صرف "نبی” کہتے ہیں، لیکن یہ نہیں پڑھتے کہ ہمارے نبی ﷺ نے کیسی زندگی گزاری، کیسے اخلاق اپنائے، کیسے دشمنوں کو معاف کیا، کیسا معاشرہ تشکیل دیا، اور عورتوں کی کیسی عزت کی۔
آج کے دور کا سب سے بڑا مسئلہ دیکھیں — شادیاں۔
پاکستان کے بڑے شہروں جیسے لاہور، کراچی، پنجاب کے علاقوں میں دیکھیں کہ شادیوں میں بے پردگی، ڈانس، ویڈیوز، سوشل میڈیا پر وائرل کلپس۔
یہ سب کچھ دیکھ کر دل دکھتا ہے۔
اسلام نے تو یہاں تک کہا کہ دیور اپنی بھابھی کو نہ دیکھے، مگر آج ہم نے بے حیائی کو عام کر دیا۔
اس میں کوئی یہ نہیں کہتا کہ شادی نہ کریں، خوب کریں، لیکن شرم، حیا اور پردے میں کریں۔
اسلام نے ہمیں اس کے اصول دیے ہیں، ان پر عمل کرنا ہمارا فرض ہے۔
اسلامی طرز زندگی اور جدید چیلنجز کا اصل حل یہ ہے کہ
ہم ہر معاملے میں سیرت نبوی ﷺ کو سامنے رکھیں۔
کیونکہ آپ ﷺ نے خود فرمایا:
"میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، جب تک ان کو تھامے رہو گے، گمراہ نہیں ہوگے: اللہ کی کتاب اور میری سنت۔”
آج جدید دنیا کا سب سے بڑا چیلنج سوشل میڈیا ہے۔
ہمیں اس کا استعمال اچھائی کے لیے کرنا ہے۔
علم، تجارت، دین سیکھنے اور دوسروں تک پیغام پہنچانے کے لیے۔
فضولیات، بے حیائی اور لڑائی جھگڑے سے بچنا ہے۔
اسی طرح فرقہ واریت نے ہمیں بہت تقسیم کر دیا ہے۔
مولانا طارق جمیل صاحب نے فرقہ واریت پر کیا خوب کہا:
"قرآن میں کہیں نہیں لکھا کہ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث بن جاؤ، قرآن کہتا ہے مسلمان بنو!”
ہمیں فرقہ واریت کو چھوڑ کر صرف مسلمان بننا ہے۔
کیونکہ قیامت کے دن اللہ ہم سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تم کون سے فرقے سے تھے، وہ پوچھے گا:
"تم میرے دین پر چلے یا نہیں؟”
مولانا طارق جمیل صاحب کا ایک پیارا شعر:
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں،
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
ہم سب کو اسلامی طرز زندگی اور جدید چیلنجز میں توازن اس طرح قائم کرنا چاہیے کہ:
- قرآن و سنت کو ہر معاملے میں ریفرنس بنائیں
- علم دین بھی سیکھیں، دنیا کا بھی سیکھیں
- میانہ روی رکھیں، انتہا پسندی یا بے پردگی دونوں سے بچیں
- اچھے دوست رکھیں جو آپ کے دین کو مضبوط کریں
- جدید ایجادات (انٹرنیٹ، موبائل) کو جائز حد میں استعمال کریں
- دعا، استغفار، اللہ سے تعلق کو مضبوط کریں
- اپنے معاشرے میں پردہ، حیا اور عزت کو عام کریں
- فرقہ واریت کو ختم کریں اور ایک امت بن جائیں
آخر میں یہی دعا ہے کہ اللہ ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت کو اپنی زندگیوں میں نافذ کرنے کی توفیق دے، اور ہم اسلامی طرز زندگی اور جدید چیلنجز میں بہترین توازن پیدا کر سکیں۔ آمین۔ 🌸