تمہید:
حلال رزق ایک مسلمان کی روحانی، اخلاقی اور مالی زندگی کا بنیادی ستون ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں یہ گائیڈ آپ کو پاکستان میں حلال ذرائع آمدن، جائز سرمایہ کاری، اور مالیاتی دیانت داری کی راہ دکھاتی ہے۔
ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنی روزی ایسے طریقے سے کمائے جو حلال ہو، پاک ہو اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ہو۔ دنیا میں سکون، دل کا اطمینان اور آخرت کی کامیابی کا انحصار اسی بات پر ہے کہ ہماری کمائی حلال ہو۔
آج کے اس مضمون میں ہم ان اسلامی اصولوں کو سادہ الفاظ میں بیان کریں گے جن کی مدد سے کوئی بھی پاکستانی مسلمان "حلال رزق” کما سکتا ہے، بغیر دھوکہ، جھوٹ، سود یا ناجائز راستے اپنائے۔
1️⃣ اصول نمبر 1: صرف حلال اور جائز ذریعہ اختیار کریں
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
"اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں”
(سورۃ البقرہ: آیت 172)
یہ واضح حکم ہے کہ صرف وہی کمائی کی جائے جو پاکیزہ ہو، یعنی "حلال رزق”۔
مثالیں:
- نوکری: اگر کوئی شخص دفتر میں کام کر رہا ہے لیکن وقت ضائع کرتا ہے تو وہ پوری تنخواہ حلال نہیں رہتی۔
- کاروبار: اگر کوئی تاجر ملاوٹ کرتا ہے یا قیمت چھپا کر چیز بیچتا ہے تو وہ بھی حلال رزق سے محروم ہو جاتا ہے۔
حضرت محمد ﷺ نے فرمایا:
"جسم کا وہ گوشت جو حرام سے پیدا ہوا ہو وہ جنت میں داخل نہ ہوگا”
(مسند احمد: حدیث 8588)
—
2️⃣ اصول نمبر 2: نبی کریم ﷺ کی تجارت سے سبق لیں
آپ ﷺ نے مکہ میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ تجارت کی۔ لوگ آپ کو "الصادق الامین” (سچا اور امانت دار) کہتے تھے کیونکہ آپ:
- جھوٹ نہیں بولتے تھے
- ناپ تول میں کمی نہیں کرتے تھے
- سامان کا عیب نہیں چھپاتے تھے
یہی وہ خوبیاں تھیں جن کی بدولت آپ کی کمائی 100% "حلال رزق” تھی۔
ایک بار آپ ﷺ کو کچھ کھجوریں ہدیہ دی گئیں، جب آپ ﷺ کو شک ہوا کہ یہ صدقہ کی ہو سکتی ہیں تو آپ نے فرمایا:
"ہم اہلِ محمد صدقہ نہیں کھاتے”
(صحیح بخاری: حدیث 1492)
—
3️⃣ اصول نمبر 3: سود اور رشوت سے مکمل اجتناب
اللہ تعالیٰ قرآن میں اعلان فرماتا ہے:
"اللہ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام”
(سورۃ البقرہ: آیت 275)
اور آگے فرمایا:
"اگر تم باز نہ آئے تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ”
(سورۃ البقرہ: آیت 279)
آج کے پاکستان میں اکثر لوگ:
- بینک سے سود پر قرض لیتے ہیں
- سودی بچت اسکیموں میں سرمایہ لگاتے ہیں
- غیر اسلامی مالیاتی اداروں میں حصہ دار ہوتے ہیں
یہ سب ذرائع "حلال رزق” نہیں کہلاتے۔ رسول اللہ ﷺ نے سود لینے، دینے، لکھنے اور گواہی دینے والوں سب پر لعنت فرمائی ہے
(صحیح مسلم: حدیث 1598)
—
4️⃣ اصول نمبر 4: کمائی کے ساتھ زکوٰۃ دینا نہ بھولیں
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"ان کے مالوں سے زکوٰۃ لو تاکہ ان کو پاک کر دو اور ان کا تزکیہ کر دو”
(سورۃ التوبہ: آیت 103)
یعنی زکوٰۃ "حلال رزق” کی صفائی ہے۔
آپ کے مال میں جو حق دوسروں کا ہے، اگر آپ نہ نکالیں تو وہ رزق ناپاک ہو جاتا ہے۔
آج اکثر لوگ:
- زکوٰۃ کا حساب نہیں رکھتے
- صرف رمضان میں دیتے ہیں، سال مکمل ہونے کا خیال نہیں رکھتے
- مستحق کو نہیں دیتے بلکہ خاندانی مجبوریوں پر دیتے ہیں
یہ غلطیاں "حلال رزق” میں رکاوٹ بنتی ہیں۔
—
5️⃣ اصول نمبر 5: نیت اور نرمی سے کمائیں، فریب اور جھوٹ سے بچیں
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"جو شخص دھوکہ دے، وہ ہم میں سے نہیں”
(صحیح مسلم: حدیث 102)
اسی لیے ہر مسلمان تاجر، ملازم، افسر، کاریگر، کسان، سبزی فروش، استاد یا آن لائن ورکر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ:
- مکمل نیت سے، دیانت داری سے کام کرے
- گاہک کو چیز کی درست معلومات دے
- قیمت میں عدل کرے
- ملازمین کو ان کا پورا حق وقت پر دے
—
🌱 نتیجہ:
اگر ہم پاکستان میں "حلال رزق” کو اپنائیں:
- گھر میں سکون ہوگا
- بچوں کی تربیت بہتر ہوگی
- دعائیں قبول ہوں گی
- اللہ کی مدد نازل ہوگی
- اور سب سے بڑھ کر آخرت کی نجات ممکن ہوگی
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
"جو شخص اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتا ہے، وہ سب سے بہتر کھاتا ہے”
(سنن ابن ماجہ: حدیث 2138)
اسلامی مالیاتی اصولوں پر جامع رہنمائی — دارالسلام فتوے سینٹر
https://darulifta.info